حوزہ نیوز ایجنسی: محرم الحرام کی مناسبت سے قیام عاشورا کے اسباب و مقاصد اور تجزیہ و تحلیل پر مشتمل رہبرِ انقلابِ اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے بیانات سے اقتباس کچھ اہم نکات کا اُردو ترجمہ آپ قارئین اور مبلغین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔
آئمہ (ع) کی اسلامی حکومت کی تشکیل کے لیے کوشش
امام کے کاموں اور ان کی زمہ داریوں میں سے ایک، اسلام کے سیاسی اور سماجی نظام اگر برقرار ہو تو اس کی حفاظت کرنا اور اگر نہیں ہے تو اسے وجود میں لانا ہے۔ ہمارے آئمہ اطہارؑ کی زندگی پر نظر ڈالیں! امام امیر المؤمنین علی بن ابی طالبؑ ایسے حالات میں حکومت اور اقتدار پر آئے کہ نظام اسلامی برقرار تو تھا، لیکن کچھ نقائص تھے۔ امامؑ نے کوشش کی کہ ان نقائص کو برطرف کر کے اسلامی نظام کی حفاظت کریں اور اس میں ایک نئی روح پھونک دیں۔ بالکل اسی شکل میں لے آئیں جیسا پیغمبر اسلام ﷺ کے زمانہ میں، یعنی اسلام خالص اور ناب، تھا۔
امام حسن مجتبٰی علیہ السّلام بھی اپنے چھ مہینہ دور خلافت میں اسی ہدف کی تکمیل کیلئے کوشاں رہے۔ البتہ امیر المؤمنین اور امام حسن علیہما السّلام کے زمانہ میں ہونے والی ناکامیوں کی مختلف وجوہات ہیں کہ جنہیں تاریخ کی رو سے تفصیل سے مورد بحث قرار دینے کی ضرورت ہے۔
لیکن معاویہ کے ساتھ صلح کے بعد وہ دس سالہ دور، جب امام حسن علیہ السلام حیات تھے اور امام حسین علیہ السلام کی امامت کا معاویہ کی زندگی کا دس سالہ نیز معاویہ کے بعد کا دو سالہ دور، اسی طرح امام حسن عسکریؑ کی شہادت تک آئمہؑ کی زندگی یعنی 260 ہجری تک ظاہراً ہمارے آئمہ (ع) کی یہی کوشش رہی کہ حکومت اسلامی کا قیام عمل میں لایا جائے۔ وہی جدوجہد جو گزشتہ دور حکومت میں لوگوں نے کی، وہی سیاسی جنگیں، وہی دشمن کو نقصان پہنچانا، وہی شدید سیاسی اور فکری پروپیگنڈہ، وہی جیل جانا، وہی جلاوطنی، وہی مواخذہ ہونا، وہی سب جو ایرانی عوام نے نہایت قریب سے دیکھا ہے وہ ہمارے ائمہ کی زندگی میں نظر آتا ہے۔
لوگوں کو لگتا تھا کہ آئمہ علیہم السّلام بڑے بڑے دانشور اور عالم ہیں، جن کا کام صرف گھر کے کسی کونے میں بیٹھ کر وعظ و نصیحت کرنا ہے، دشمن بھی ان سے حسد کی بنیاد پر انہیں تعلیم دینے، بحث و گفتگو کرنے اور لوگوں کو مسائل بتانے سے روکنے کیلئے ان کے گھروں کا گھیراؤ کرتے اور کبھی ان کا مواخذہ کرتے ہیں۔ کبھی یہ لوگ معافی بھی مانگ لیتے تھے اور اسی طرح انہیں زہر دے دیا گیا، یہ فکر و خیال بالکل غلط ہے۔ ہرگز ایسا نہیں تھا۔
ہمارے آئمہ ایک مزاحمتی گروہ اور مزاحمت کے رہبر تھے۔ آئمہ علیہم السّلام تمام اسلامی ممالک میں ایک عظیم تبلیغی اور سیاسی مشن کی سربراہی کرتے تھے۔
آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہمارے آئمہؑ کے دور میں خود ایران کے صوبے جیسے خراسان، سیستان، مازندران، رے اور اسی طرح کئی دیگر ممالک جیسے عراق، یمن، حجاز اور مصر میں بھی اموی اور عباسی حکمرانوں کے خلاف زبردست (مہم) تبلیغ کی گئی۔ ایسی زبردست مہم چلائی گئی کہ جو ان کی حکومت کی جڑیں کمزور کرتی اور مختلف گروہوں کو (اموی اور عباسی حکمرانوں) کے خلاف آمادہ کرتی تھی۔
سیاسی جد وجہد کیوں کی جاتی تھی؟
اس لیے کہ معاشرے میں اسلامی، علوی و نبوی نیز قرآنی حکومت قائم کرنا چاہتے تھے۔ یعنی اسلامی آئیڈیالوجی کو تحقق بخشنا چاہتے تھے، کیونکہ منصور، ہارون، عبد الملک اور متوکل کے دور میں اسلامی حکومت اپنے حقیقی معنوں میں موجود نہیں تھی اور آئمہ علیہم السّلام اسے (اسلامی حکومت) تشکیل دینا چاہتے تھے۔
قیام عاشورا میں امام حسینؑ کی فتح
آپ امام حسینؑ کو ایک شکست خوردہ اور ناکام شخصیت کے عنوان سے نہیں پہچانتے، جبکہ وہ افراد جو حکومت و اقتدار کے خواہاں ہوتے ہیں ان کے لئے یہ ایک عبرتناک انجام ہے۔ اس سے بڑھ کر کوئی اور ناکامی نہیں ہے۔
آپ اموی یا عباسی خلفاء یا بادشاہوں میں سے کسی ایک جیسے یزدگرد سوم یا مروان حمار کو مدنظر قرار دیں، یہ سب یا تو مارے گئے یا بھاگ گئے یا جلاوطنی میں مر گئے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا ہے کہ یہ یا ان کے ساتھی مارے جائیں اور ان کی خواتین کو قیدی بنایا گیا ہو، وہ بھی تشنہ لبی سے مارے گئے ہوں، ان تمام تکالیف سے مارے گئے ہوں کہ جن کا حسینؑ ابنِ علی کو سامنا کرنا پڑا؛ لیکن آپ ان تمام بادشاہوں کو شکست خوردہ اور مغلوب سمجھتے ہیں۔
ہم کیوں حسینؑ بن علی کو تاریخی فاتح مانتے ہیں؟
تاریخ کا مطالعہ کریں گے تو آپ کی رائے یہ ہو گی کہ یزدگرد سوم نے شکست کھائی، مروان حمار نے عباسیوں کے ہاتھوں شکست کھائی، معتصم عباسی کو ہلاکو نے شکست دی۔ آپ اس جیسے ہر بادشاه، ہر خلیفہ کو شکست خوردہ سمجھتے ہیں؛ لیکن حسین بن علیؑ کہ جو ان سب سے زیادہ (خطرناک) اور تباہ کن حالت میں مارے گئے، کو فاتح سمجھتے ہیں؛ آخر کیوں؟
حسین بن علیؑ واقعی میں کامیاب و کامران ہوئے، کیونکہ جو کام آنحضرت انجام دینا چاہتے تھے وہ انجام پایا، لہٰذا آپ (ع) کامیاب ہوئے اور تمام انبیاء الٰہی (ع) بھی کامیاب ہوئے۔
انبیاء (ع) آئے، تاکہ لوگوں کو قدم بہ قدم کئی خصوصیات سے مزین کریں
اولاً: آئے لوگوں کو سوچنا اور فکر کرنا سکھا دیں۔ اگر انبیاء علیہم السّلام نہ ہوتے تو بنی نوع انسان کو سوچنا نہیں آتا، لہٰذا ہمارا عقیدہ ہے کہ اگر تاریخ میں انبیاء علیہم السّلام کا سلسلہ نہ ہوتا تو آج بشریت یہ جدید سے جدید ٹیکنالوجی، یہ مادی و صنعتی ترقی، یہ جدید سائنسی تحقیقات سے بھی عاری ہوتی۔
ثانیاً: انبیاء علیہم السّلام مبعوث ہوئے، تاکہ اخلاقی فضائل اور کمالات کو ان کے عروج پر پہنچائیں۔
ثالثاً: انبیاء علیہم السّلام آئے، تاکہ لوگوں میں ایک مثالی معاشرے کی تشکیل کی خواہش اور جذبہ اجاگر کریں، لہٰذا مہدویت اور مثالی تاریخی و انسانی معاشرے کا مسئلہ ایک ایسا مسئلہ ہے، جو تمام انبیاء علیہم السّلام کا شعار رہا ہے۔